برما میں مسلمانوں کے حالات

میانمار کی سیاسی اصلاحات
 اور
 وہاں کے مسلمانوں کی آہیں
 محمد عامل عثمانی  (مکہ مکرمہ )
 (Thanks Rabtaa ul islami for detail informations)
             میانمار بنام برما میں اپریل کے شروع میں قانونی جزئی الیکشن ہوا ، الیکشن کا گھمسان اڑتالیس سیٹوں پر بر سر اقتدار پارٹی اور حزب مخالف سومتی کے امیدواروں کے درمیان ہوا ، حزب مخالف کے امیدوار جمہوری نیشنل فرنٹ کی طرف سے رانجوں کے قریب ‘‘ کومو’’ حلقے کے لئے اتارے گئے۔
                 مغرب پر امید ہے کہ یہ الیکشن نومبر ۲۰۱۰ ؁  کی قرعہ اندازی کے بعد فوجی بر سر اقتدار نظام کے لئے ایک طرح کا امتحان ہے کہ وہ اپنے کو عوامی حکومت کے پیرہن میں پیش کرے ، اور یہ کہ وہ کس حد تک سیاسی اصلاحات کے نفاذ میں سنجیدہ ہے ، دوسری جانب عالم اسلامی میانمار کے مظلوم مسلمانوں کی آہوں اور آنسؤوں سے بالکل بے خبر ہے ، میانمار کے مسلمان ملک کی مجموعی آبادی ۶۵۰۔۵۸۴۔۵۴ کا چار فیصد ہیں جب کہ ۸۹ فیصدبودھ مذہب کے ماننے والے ہیں ۔
                 بلاشبہ میانمار میں قانونی حکومت کے قیام کی کوشش یوروپی یونین کے زیر نگرانی ملک پر عاید پابندیوں کوکم کر نے کے لئے ہے،لیکن یہ کوشش ہر گز ان بیس لاکھ مسلمانوں کو نظر انداز کر کے بار آور نہیں ہو سکتی جن کو رو ہینجیا کی اقلیت کا نام دیا گیا ہے جو چند سالوں سے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور صفایا و حاتمہ کی مہم سے دو چار ہیں ، فوج ان مسلمانوں کو قانونی الیکشن میں حصہ لینے ہی سے نہیں روک رہی ہے بلکہ انہیں شہری حقوق سے بھی محروم کر رہی ہے ان مسلمانوں کو وہاں کا نیشنل نہیں سمجھا جاتا ہے اور ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں ہے اور انہیں اتری راحینی صوبہ سے میانمار کے دوسرے صوبے میں سابقہ اجازت کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی ، اس کے علاوہ پرسنل لاءسے متعلق کاروائی کرانے جیسے شادی بیاہ ، بچوں کے نام درج کرانے کے سلسلے میں ایسی کڑی شرطیں ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ غیر قانونی طورپرپڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں خاص طور سے بنگلہ دیس جو اکثریتی مسلم ملک ہے ، اور ہزاروں لوگ ہندوستان میں بھی مہاجرکی زندگی گزار رہے ہیں۔

مسلمانوں کی پریشانیاں:
                 اس ملک کے مسلمانوں کی آہ و بکا اور پریشانیوں کے ساتھ ساتھ ہزارہا ہزار روہینجیا کے لوگ جو بنگلہ دیش میں غیر قانونی ہجرت کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں یا مہاجرین کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وہ لوگ میانمار میں دوبارہ واپس ہونے کے مقابلے میں موت کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں موت ان کے انتظارمیں کھڑی ہے۔
                 پناہ گزینوں میں حاجی عبد المطلب ہیں جو میانمار اور بنگلہ دیش کے علاقے میدا میں غیر سرکاری کیمپ میں رہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے : میانمار میں کورٹ مارشل مسلم اقلیت سے ملک کو پاک و صاف کر نے لئے کوشاں ہے اس کے لئے وہ انہیں بلا معاوضہ مشکل کام انجام دینے کے لئے مجبور کرتی ہے، اس کے ساتھ غصب و اغوا و قتل و غارت گری کا بازار پورے ملک میں گرم ہے جیسا کہ رویتر کی ۳۱۔ ۱۔ ۲۰۰۹ ؁ کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے۔
                 ایک دوسرے صاحب ہیں جن کا نام نامی محمد نور ہے وہ بھی پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے تھے وہ کسی طرح تکلیف دہ سفر کرکے انڈونیشیا پہنچے ان کو بلا قصور جیل میں ڈال دیا گیا تھا جن سے میانمار کی فوج کے مفاد میں کام لیا جاتا تھا ، وہ مقام سخرہ میں کام کے دوران بے حد تکلیفوں سے گزرے چنانچہ وہ بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہوئے پھر وہاں سے انڈونیشیا پہنچے جہاں انڈونیشیا کی سمندری فوج نے پناہ گزینوں کی کشتی کے ڈوب جانے کے بعد انہیں نکالا تھا لیکن جناب محمد نور - جو روہینجیا کے مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں - کی آزمائش یہیں پر ختم نہیں ہوئی جیسا کہ شیتد برس ایجنسی کی  ۲۸۔ ۱ ۔  ۲۰۰۹ ؁  کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے ، محمد نور کہتے ہیں ، اگر مجھے میانمار بھیجا گیا تو میں یہاں مر جانے کو ترجیح دونگا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ اگر میں وہاں پہنچا تو وہاں کی فوج مجھے دردناک حالت میں قتل کر دے گی انہوں نے مجھے قید کر رکھا تھا وہ مجھے مارتے تھے مجھے ادھ مرا کرکے چھوڑتے تھے۔
                 مسلم اقلیت جن پریشانیوں سے دو چار ہے ہیومن رائٹس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس کی مذمت کی ہے اور ایک سے زائد بار مطالبہ کیا ہے کہ میانمار کی فوج رو ہینجیا کے نام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اس کی بین الاقوامی تحقیق و تفتیش ہونی چاہئے چنانچہ ۱۳/۷/۱۱۰۲؁کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار کو عدالت کے اندر پیش ہونا چاہئے کیوں کہ انہوں نے انسانوں کے ساتھ جانوروں والا معاملہ کیا ہے ، برمی فوج قیدیوں پر ظلم کرتی ہے اور ان سے جانوروں والاکام لیتی ہے جن کی اکثریت مسلمان ہے، پھر بغیر کسی فیصلے کے انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے اور ٹارچر کیا جاتا ہے اور ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

قانون کی پامالی - اوراصلاحات کی کوششیں :
                 برمی فوج کی شہریوں کے حقوق کی پامالی جس کا تذکرہ ہیومن رائٹس نے اپنی جنوری ۲۱۰۲ءمیں شائع ہونے والی رپورٹ میں پیش کیا ہے کہ یہ انسانی بین الاقوامی قانون کی قانون شکنی ہے، وہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کے لئے بارودوی سرنگوں کا استعمال ، عورتوں و دوشیزاؤں کے ساتھ جنسی زیادتی ، قتل و غارت گری ، مارپیٹ ، غذائی سامان کو نشانہ بنانا ، زمین و جائداد کو ہڑپ کرنا اور بچوں سے زبردستی کام لینا ، جس کی وجہ سے روہینجیا کے پناہ گزینوں کی تعداد بنگلہ دیش کے سرکاری کیمپوں میں (۲۸) اٹھائیس ہزار ہو گئی ہے جب کہ چودہ ہزار لوگ تھائلینڈ کے غیر سرکاری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور دو لاکھ لوگ میانمار کے سرحدی علاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو وہاں سے ہندوستان یا سنگا پور میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔
                 امریکہ کے انسانی معاملات کو منظم کر نے والے ایک ادارے کے آفس نے ۲۳/۱/۲۰۱۲؁ کو یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ رو بینجیا کے چالیس ہزار بچوں کا نام درج نہیں کیا جا سکا ہے ان کڑی شرطوں کی وجہ سے جو وہاں کی اقلیت پر عائد ہیں اس میں سے ایک پابندی یہ ہے کہ دو سے زائد بچے نہ ہوں اور بیبیوں کے نام بھی نوٹ نہیں کئے جاتے ان شرطوں کی خلاف ورزی ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا دس سال قید با مشقت ہے ، ۱۹۸۲ءمیں جاری شدہ میانمار حکومت کے قانون کے مطابق رو ہینجیا کے تمام بچے خواہ نام نوٹ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو برمی نہیں سمجھے جائیں گے انہیں غذا خورو نوش ،صحت کی سہولتیں اور تعلیم کے مواقع فراہم نہ ہوں گے ، اور انہیں فوج کے مفاد والے مشکل کاموں میں استعمال کیا جائے گا ۔
                 بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں کی رپورٹوں اور امریکن پناہ گزیں لوگوں کے حالات کو منظم کرنے والی تنظیموں کی مذمتوں کا دنیا کے بڑے ملکوں خاص طور سے ایشیا کے بڑے ملکوں پر کچھ بھی اثر نہیں ہو رہا ہے ، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایشیائی کانفرنس جو انڈونیشیا میں اپریل ۲۰۰۹ءمیں میانمار کی اقلیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی وہ ناکام ہوئی تھی اس طرح ایشیائی ملکوں کے کھاتے میں ایک اور ناکام کانفرنس کا اضافہ ہو گیا جو میانمار کی اقلیت کی پریشانیوں میں تخفیف و کمی اور صوبائی حل پیش کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی ، اس ناکامی کی حد تک معاملہ نہیں رہا بلکہ اب معاملہ بہت آگے بڑھ گیا ہے کہ چین میانمار کی اٹھارٹی کو سیاسی و دینی تعاون پیش کر رہا ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی روز بروز بڑھ رہی ہے ، چین نے ۲۲ / فروری ۲۰۱۲ءکو ایک دستاویز پر دستخط کیا ہے جو میانمار میں موجود بودھ مذہب والوں کی تقویت اور ان کے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لئے لینع قوانع بکین اور میانمار کے شویدا جوں کے معبد کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار کی گئی ہے ، اور چین نے اسکول قائم کرنے اور طبی امداد دینے کے لئے فنڈ فراہم کیا ہے ،جب کہ مسلم ممالک اس مظلوم اقلیت کا کسی طرح کا تعاون کرنے سے قاصر ہیں ، تعاون اسلامی تنظیم کے ممبران ممالک اس اقدام کو نافذ کرنے کے لئے ذرائع و وسائل ڈھونڈ رہے ہیں جو مئی ۲۰۱۱ءمیں سامنے آیاتھا جس اقدام کامقصد یہ تھا ک روہینجیا کے دوسرے ملکوں میں رہائش پذیر لوگوں کو متحد کیا جائے ، اور اساقلیت کے جائز مطالبات کا ایک منظم ڈھانچہ مرتب کیا جائے اور بین الاقوامی تنظیموں جیسے اسلامی کنوینشن تنظیم ، امریکن تنظیم اور یوروپی انجمن کومسلمانوں کو جائز حقوق دلانے کے لئے آمادہ کیا جائے لیکن میانمار حکومت کی ملک میں اصلاحات کی کوششیں نا کام و فیل ہو گئیں جب کہ اس نے بہت سے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور وہاں کی بعض جماعتوں جیسے کاربن شان ، تشین اور کوکانج سے امن و سلامتی کے معاہدے پر دستخط بھی کئے ، اور دوسری طرف مسلسل اپنے ان شہریوں کا صفایا اور خاتمہ کیا جن کا صرف اور صرف یہ قصور ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، کونسا قانون ان کو یہ سزا دینے کا جواز فراہم کر تاہے کیا ان حالات میں سیاسی اصلاحات ممکن ہیں؟۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.