دو روز قبل ایک کام سے داروخانہ ، بمبئی جانا ہوا' جہاں پر حضرت پیر سید علی میرا داتار
رحمتہ اللہ علیہ آرام فرما رہے ہیں ۔ بس سوچا کہ
مزار شریف پر فاتحہ بھی دیتا چلو ۔
۔ ۔
یوں تو
درگاہوں میں ہونے والی جاہل رسمو ں کے
بارے میں بہت کچھ سنا تھا مگر خودانہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔۔ گذشتہ
ہفتہ جب وہاں حاضر ی کا اتفاق ہو ا ( ظہر ' عصر اور مغرب کی نماز درگا ہ کہ مسجد
میں ہی ادا کی ) تو وہاں کا ماحول اور وہا ں کے حالات دیکھ کہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اب ہم میں اور ہندوؤں میں بہت ہی کم
فرق رہ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ( میں اس کے آگے کچھ لکھنا
مناسب نہیں سمجھتا ۔ ۔ ۔ ۔ بس دعا ہی کرتا
ہوں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی ہمارے حال پر رحم
کرے )
مجھے معلوم
ہے کہ شاید یہ مختصر تحریر میرے رضا
خانی بھائیوں کو بہت گراں گزرے گی
مگر میرے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس
بابت کچھ لکھا نہ جائے ۔ میں ان سے معذرت چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔
چونکہ
درگاہ کمیٹی کے جانب سے وہاں تصویر کشی
ممنوع تھی اس لئے میں نے وہاں کی تصویریں
نہیں نکالی ۔ ۔ وگرنہ
آپ کے سامنے وہاں کی چند تصاویر بھی پیش کرتا ۔ ۔
بس ایک بات
جو درگاہ
کمیٹی کی قابل ستائش لگی وہ یہ ہے کہ عورتوں کو مزار سے دور ہی رکھا جاتا
ہے اور مزار کے اندر تک ان کی رسائی ممنوع ہے ۔ ۔ ۔ ( کہ بعض مقامات میں عورتیں مزار تک بھی جایا کرتی ہیں )
آخر میں دعا
کرتا ہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب کرے اور خاتمہ بالخیر نصیب کرے- آمین ۔ ثم آمین
(نوٹ : درج
بالا تحریر کسی کی دل آزاری / کسی کا دل دکھانے کی نیت سے نہیں ( بلکہ ایک درد میں ) لکھی گئی ہے ۔
برائے کرم تبصرہ کرتے ہوئے اس بات کا
دھیان رکھے کہ ہمارے تبصرے سے کسی کا دل
نہ دکھے ۔ ۔ اور نہ ہی فرقہ بندی کا ماحول بن جائے ۔ ۔ ۔ ۔
وگرنہ تبصرہ حذف کیا جائے گا ۔
۔ جزاک اللہ )