ڈاکٹرصفیہ {سروج شالنی }سے ایک ملاقات

ڈاکٹرصفیہ {سروج شالنی }سے ایک ملاقات

اسما ء ذات الفوزین : السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ڈاکٹر صفیہ : و علیکم السلام ورحمۃ اللہ

  سوال  : ڈاکٹر صاحبہ، ابی کا ا جمیر سے فون آیا تھا، انھوں نے بتایا کہ آپ کا فون آیا تھا، میں آپ کو بلالوں اور آپ سے کچھ باتیں کروں، آپ کے علم میںہوگا کہ ہمارے یہاں پھلت سے اپنے خونی رشتہ کے بھائی بہنوں خصوصاً برادرانِ وطن تک ان کا دعوتی حق پہونچانے اور ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر اور ذمہ داری پیداکرنے اور مسلمانوں کو بیدارکر نے کے لئے ایک اردو میگزین نکلتی ہے اس میں اسلام کے دستر خوان پر آنے والے نئے خو ش قسمت بھا ئیوں کی آپ بیتی ہر ماہ شائع کی جا رہی ہے ابی کی خواہش تھی کہ ۲۰۰۵؁ ء کے شمارے میں آپ کا انٹر ویو شائع ہوجائے ۔
 جواب  :اصل میں میں پندرہ روز سے مولانا صاحب کو فون کرنے کی کو شش کررہی تھی میرے پاس ان کا یوپی اور دہلی کے موبائل تھے مگر مل نہیں رہے تھے، کل اتفا ق سے فون مل گیا انہوں نے مجھے دہلی گھر کا نمبر دیا اور بہت تاکید کی کہ آپ فون کرکے ضرور چلی جائیں اس لیے کہ میگزین پریس میں جانا ہے اور بالکل آخری تاریخ ہے مجھے مولانا صاحب نے بتایا کہ یہ انٹرویو زدعوت  کا ماحول بنانے میں بڑا رول ادا کر رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ میرا بھی اس میں کچھ حصہ (شیرَ) ہوجائے آپ مجھ سے جو چاہیں معلوم کریں،

  سوال  :  شکریہ آپ پہلے اپنا تعارف ( پریچئے ) کرائیں ۔
 جواب  :میرا پرانا نام سروج شالنی ہے میں ۲۴؍ ستمبر ۱۹۷۸ ؁ ء میں لکھنو کے پاس موہن لال گنج میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی میرے والد ڈاکٹر کے  اے شرما، پروفیسر تھے اورکارڈیا لوجی میں ڈی ایم کیا تھا ‘اس کے بعد کافی زمانہ تک وہ پنتھ ہوسپٹل میں رہے‘ دس سال سے لکھنوَ میں گھر کے قریب کوشش کرکے ٹرانسفر کرالیا ِ، میری ( ماتا ) والدہ گھریلو خاتون ہیں، میرے والد مزاج کے لحاظ سے بالکل ہندوستانی ہیں وہ صرف مشرقی تہذیب سے اتفاق رکھتے ہیں اس لئے انہوںنے اپنے گھر والوں پر دبائو دیکربہت سے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر میری والدہ کو پسند کیا اور شادی کی، میرے دو بھائی ہیں، ایک بنارس یونیورسٹی میں ریڈر ہیں اور دوسرے بی ایچ ایل میں انجینئر ہیں دونوں مجھ سے بڑے ہیں، میں نے انٹر سا ئنس بایولوجی میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور پھر PMT مقابلہ پاس کیا، لکھنؤ میڈیکل کالج سے ایم، بی، بی ایس کیا اور مولانا آزاد میڈیکل دہلی سے ایم ڈی کیا،اپنے والد کی خواہش پر کارڈیالوجی (امراض قلب )کو منتخب کیا اب میں AIMS میں D.M. بھی کر رہی ہوں اور آجکل AIMS میں ڈپارٹمنٹ آف کارڈیالوجی میں ملازمت بھی کرتی ہوں، میں نے اب سے ایک سال چھ ماہ چارروز دوگھنٹے پہلے، بیس مئی ۲۰۰۴ء کو برہسپتوار (بروز جمعرات ) گیارہ بجے، گرین پارک کی مسجد میں جاکر آپ کے والد صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
  سوال  : ا پنے اسلام قبول کرنے کے واقعہ اور اس کے اسباب کو آپ ذراتفصیل سے بتایئے ؟
 جواب  :جون  ۲۰۰۳ ؁ء میں I.C.C.U بچوں کے وارڈ میں ڈیوٹی پر تھی میں نے دیکھا کہ ایک مولاناصاحب ہریانہ کے ایک بچہ کو دیکھنے آئے،بچہ کے پاس صرف ایک (Attandent) تیماردار کیسے اپنے بچے کو پھونکنے کے لئے کہا ‘ بچے کی ماں ہریانہ والے بچے کے پاس کھڑی ہوگئی، مولانا صاحب نے دوسرے بچے پر بھی دم کیا اس کو دیکھ کر برابر والی ماں نے بھی اپنے بچے کو پھونکنے کے لئے کہا، ایک کے بعد ایک چھ بچوں کے پاس مولانا صاحب آکر کھڑے ہوئے اور پھونکتے رہے، ڈاکٹر تیاگی جو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے، ان کے راؤنڈ کا ٹا ئم تھا میں سامنے سے دیکھ کروارڈمیں آئی اور مولانا صاحب سے پوچھا : آپ کا مریض کون ہے ؟ آپ کبھی اس مریض کے پاس، کبھی اس مریض کے پاس آرہے ہیں اور پھونک رہے ہیں، یہ I.C.C.U ہے یہاں پر انفکشن(Infection) کا خطرہ رہتا ہے، مولانا صاحب نے کہا یہ سارے مریض میرے ہیں اس لئے کہ ہمیں ہمارے بڑوں نے یہ بتایا  ہے کہ سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لئے یہاں پر ایڈ مٹ ہر مریض سے میراخونی رشتہ ہے، جس مالک نے آپ کو اور ہمیں پیدا کیا ہے اس کو یہ تیرا میرا بالکل پسند نہیں اور جو چیز ہم پڑھ کر پھونک رہے ہیں وہ اسی مالک کا کلام ہے جس نے اپنے کلام میں یہ بات کہی ہے، اپنے سچے سندیش واہک حضرت ابراہیم کی زبان سے یہ بات کہلوائی اور حضرت ابراہیم وہ ہیں جن کے نام پر بھارت کے لوگ اپنے کو براہمن (براہیمی) کہلاتے ہیں کہ جب میں بیمار ہوتا ہے تو وہ مالک شفا دیتا ہے یعنی ٹھیک کرتا ہے، آپ روز دیکھتی ہوںگی آپ اپنی سوچ سے اچھی اچھی دوا مریض کو دیتی ہیں اور مریض ٹھیک ہونے کے بعد مرجاتا ہے اوربعض مرتبہ علاج میں غلطی ہوتی ہے اور مریض ٹھیک ہوجاتا ہے، ایسی بات میں نے پہلی بار سنی تھی  پچھلے ہفتہ ہمارے وارڈ کے چھ بچے ایکسپائر (مر گئے ) ہوگئے تھے، ان میں سے چار بچے تو بہت سندر تھے اور دو ہفتہ تک وارڈ میں رہنے کی وجہ سے مجھے بھی ان سے بہت تعلق ہوگیا تھا، ان کی موت سے دل پر بہت صدمہ تھا، مولانا صاحب کی محبت بھری باتیں سن کر مجھے ایسا لگا کہ مجھے ان کی کچھ اور باتیں سننی چاہیے میں نے مولانا صاحب سے اپنے کیبن میں آنے کو کہا، مولانا صاحب نے میری درخواست قبول کی مولانا صاحب نے مجھ سے کہا آپ میری چھوٹی بہن یامیری اولاد کی طرح ہیں اور محبت سے مجھے بلاکر لائی ہیں تو میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے وارڈ میں آنے والے مریض کو اپنا بچہ یا اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درد اور تکلیف کو اس طرح لیں، مالک نے آپ کو کیسا اچھا موقع دیا کہ آپ کو پریشان حال لوگوں کے درد میں شریک کیا، آپ کو خوب اندازہ ہوگا کہ جس ماں کا بچہ ہو اور وہ اتنا بیمار ہو کہ ICCU میں ایڈمٹ  ہو اور سرکاری اسپتال میں ایسے مریض آتے ہیںجن کا کوئی سہارا نہیں ہو ان کے ساتھ ذراسی ہمدردی آپ کریں تو ان کے روئیں روئیں، بلکہ انتر آتما سے آپ کے لئے دعائیں نکلیں گی، آ خر میں مولانا صاحب نے بڑے درد سے میرا نام پوچھا اور بولے، ڈاکٹر شالنی ! آپ میری خونی رشتہ کی بہن ہیں، اس لئے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں بلکہ وصیت کرتا ہوں اور وصیت اس کو کہتے ہیں جو کوئی مرنے والا اپنے بچے سے مرنے کے وقت اپنی آخری بات کے طور پر کہتا ہے کہ آپ وارڈ میں آنے والے کا علاج سب سے بڑی پوجا سمجھ کر کریں آپ کو سینکڑوں سال کی تپسیا اور کٹھن پوجا (مشکل عبادت ) میں مالک کے یہاں وہ جگہ نہیں ملے گی جو کسی پریشان حال مریض اور اس کے مصیبت زدہ ماتاپتا کو تسلی دینے میں ملے گی۔
                 میں نے مولانا صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ میں کوشش کروںگی، مولانا صاحب چلے گئے، ڈ اکٹر صاحب کے رائونڈ کے بعد میں نے پانی پت ہریانہ کے اس بچے کے باپ سے معلوم کیا کہ یہ مولانا صاحب کون ہیں، اس نے بتایا کہ یہ ہما رے حضرت جی ہیں، یہ بہت اچھے آدمی ہیں، ان کے ہاتھوں پر ہزاروں ہندو مسلمان ہوگئے، کافی دنوں تک مجھے مولانا صاحب کی باتوں کا دل پر اثررہا، خاص طور پر یہ بات کہ یہ سارے مریض میرے ہیں، جس مالک نے ہمیں پیدا کیا اس کو یہ تیرا میرا پسند نہیں، میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مولانا صاحب کے پھونکنے سے مریضوں کی حالت میں عجیب فرق آیا ہے اور سارے مریض ٹھیک ہوکر وارڈ سے گئے، لیکن کچھ دن گذرنے کے بعد ذہن سے بات نکلتی گئی، مولانا آزاد میڈیکل کالج میں میری ایک روم پاٹنر ڈاکٹر رینا سہگل تھی وہ گائنی میں ایم، ایس کررہیں تھی اور بعد میں وہ صفدر جنگ اسپتال میں گائنی ڈپا ر ٹمنٹ میں ملازم ہوگئی ہم لوگوں میں خاصی دوستی ہے، ایک دن انہوں نے مجھے کھا نے پر بلایا کھا نے کے بعد با تیں ہو رہی تھیں، ان کے یہا ں مسلمان کا م کر نے والی آتی تھی، وہی کھانا وغیرہ بناتی تھیمیں نے ان سے کہا تم نے مسلمان کھانا بنانے والی کیوں رکھ رکھی ہے ؟ تمہیں کوئی ہندو نہیں ملی ؟ وہ کہنے لگیں یہ بڑی اچھی لڑکی ہے بہت ایماندار ہے، کئی بار میرا پرس گر گیا جوں کاتوں مجھے لاکر دیا، باتوں باتوں میں مسلمانوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں، ڈاکٹر رینا کہنے لگیں جیسے جیسے ہمارے دیش بلکہ پورے سنسار میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں باتیں آرہی ہیں لوگ مسلمان ہوتے جارہے ہیں، کیسے کیسے بڑے لوگ مسلمان ہورہے ہیں، مائیکل جیکسن کے با رے میں تمہیں معلوم ہوگا وہ بھی مسلمان ہوگیا، ہمارے ہوسپٹل میں کارڈیالوجی میں ایک نوجوان ڈاکٹر بلبیر نام کے ہیں وہ بھی دو ایک سال پہلے مسلمان ہوگئے ہیں اور وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ پورے اسپتال کے لوگ مسلمان ہوجائیں، ایک مریض کے سلسلہ میں ان کو چیک اپ کے لئے بلایا بس مجھ سے کہنے لگے اگر مرنے کے بعد نرک سے بچنا ہے تو مسلمان ہوجائو، مجھے یہ سن کر اپنے وارڈ میں آئے مولانا صاحب یاد آگئے اور ان کی ساری باتیں تازہ ہوگئیں، میں نے ڈاکٹر رینا سے کہا آپ مجھے ڈاکٹر بلبیر سے ضرور ملائیں  انہوں نے اگلے روز فون کرنے کو کہا اور بتایا کہ اتوار کو ڈاکٹر بلبیر کو میں نے کمرے پر بلایا ہے، آپ دس بجے میرے کمرے پر آجائیں اتوار کے روز میں ڈاکٹر سہگل کے کمرے میں گئی، ڈاکٹر بلبیر بھی آگئے، سانولے رنگ کے بہت ہی سجن نوجوان، جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہوں، میں نے ان سے معلوم کیا آپ نے کتنے دن پہلے اسلام قبول کیا، انہوں نے بتایا آٹھ نوسال پہلے، میں نے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہاصرف اور صرف اسلام  ہی سچا اور سب سے پہلا اور سب سے انتم دھرم ہے اور اسلام کے بغیر مرنے کے بعد کی زندگی میں نہ تو موکش ہے نہ مکتی  (نجات ) اور ہمیشہ ہمیشہ کی نرک ہے اور اسلام قبول کرنا آپ کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا میرے لئے، میں نے معلوم کیا کہ آپ نے نام بھی بدل لیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ہاں میرااسلامی نام ولی اللہ ہے، جس کا ارتھ (معنی ) ہے اللہ کا یعنی ایشورکا دوست، میں نے ان سے کہا کہ ایک ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ایک مولانا صاحب آئے تھے، انہوں نے مجھ سے کچھ باتیں کی تھیں وہ آج تک میرے دل کو لگی ہوئی ہیں وہ وارڈ کے ہر مریض کو پھونک رہے تھے، میرے معلوم کرنے پر کہ آپ کا مریض کونسا ہے انہوں نے کہا کہ سارے مریض میرے ہیں، ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد، خونی رشتہ کے بھائی ہیںیہ’ تیرا میرا‘  پیدا کرنے  والے مالک کو بالکل پسند نہیں ڈاکٹربلبیر کہنے لگے، مولانا صاحب نے یہ باتیںبالکل سچی کہی  تھیں یہ تو اسلام کے اور ہم سب کے رسول حضرت محمدﷺنے اپنے آخری حج کے بھاشن میں کہی تھیں، میں نے کہا وہ بھاشن چھپا ہوا ملتا ہے انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے نبی کا ہر بول پوری طرح سورکشت ( محفوظ)  ہے اور چھپا ہو ملتا ہے میں کسی سے لے کر ڈاکٹر رینا کے ہاتھ آپ کو بھجوادوں گا۔
                دو چار روز کے بعد ڈاکٹر رینا سہگل نے مجھے وہ پمفلٹ جس میں انگریزی میں ہمارے نبیﷺ کے آ خر ی حج کا خطبہ انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ تھا لاکر دیا، اس کو پڑھ کر میں حیران رہ گئی  خاص طور پر عورتوں کے بارے میں بار بار ان کی چرچا میرے دل کو اور لگ گئی، مجھے مولانا صاحب کی یاد آئی اور خیال ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میں مولانا صاحب کا پتہ لے لیتی، میں نے ہاسپٹل میں پرانے مریضوں کی فائلیں تلاش کیں کہ پانی  پت کے مریض کا پتہ مل جائے تو میں خود مریض کے گھر جاکر مولانا صاحب کا پتہ معلوم کروں، مگر مجھے پتہ نہیں مل سکا، مجھے اسلام کو پڑھنے اور اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہوگیا تھا، میں نے ڈاکٹر بلبیر کا فون لیا اور ان سے ملنے کے لئے وقت طے کیا صفدر جنگ ہو سپٹل جا کر ان کے وارڈ میں ان سے ملی ان سے اسلام کو جاننے کے لئے لٹریچر دینے کو کہا، دوسرے روز وہ میرے ہوسپٹل آئے اور مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ’’ آپ کی امانت‘ آپ کی سیوا میں ‘‘ ہندی میں دی اور انہوں نے کہا کہ اسلام کی ضرورت اور اس کے بارے میں جاننے کے لئے یہ چھوٹی سی کتاب سو کتابوں کی ایک کتاب ہے، بس یہ کتاب آپ کو یہ سوچ کر پڑھنی ہے کہ ایک سچا ہمدرد صرف مجھ سے یہ بات کہہ رہا ہے اور آپ کتاب پڑھیں گی تو آپ کو خود ایسا ہی لگے گا میں نے اس کتاب کے لیکھک کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کیا ہے کتاب کے دو شبد کتاب کی جان ہے ان کو پڑھ کر آپ کتاب اور کتاب لکھنے والے کو جان جائیگی، ڈاکٹر بلبیر نے مجھے بتایا کہ وہ دہلی کے پاس یوپی کے ایک شہر کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، کتاب دے کر اور کچھ دیر چائے وغیرہ پی کر وہ چلے گئے میں نے وارڈ میں بیٹھ کر وہ کتاب بس ایک بار میں پڑھ ڈالی، کتاب پڑھ کر مجھے مولانا صاحب کی بہت یاد آئی، کتاب نے میرے دل میں اپنی جگہ بنالی تھی، میں نے کتاب کو پڑھ کر ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے کہا کہ کتاب کے لیکھک کی اور کوئی کتاب مجھے دیجئے اور اگر ان سے مجھے آپ ملا سکیں تو آپ کا مجھ پر بڑا آبھار (احسان ) ہوگا۔
                 چار روز بعد اٹھارہ مئی تھی، ڈاکٹر بلبیر کا میرے پاس فون آیا انہوںنے بتایا کہ اگر آپ چھٹی لے سکتی ہوں تو ’’آپ کی امانت ‘‘ کے لیکھک مولانا محمد کلیم صاحب  سے گرین پارک کی مسجد میں ملاقات ہوجائے گی میںفوراً تیار ہوگئی، ہم آٹو سے گرین پارک کی مسجد پہونچے، مولانا صاحب گیارہ بجے کے بجائے ساڑھے دس بجے وہاں پہنچ گئے تھے، ان کو آگے سفر کرنا تھا مولانا صاحب کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے بھول نہیں سکتی جب میں نے دیکھا کہ آپ کی امانت کے لیکھک مولانا کلیم وہی مولانا صاحب ہیں، جو ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ہریانہ کے بچے کو دیکھنے آئے تھے اور جن کو میں اس قدر تلاش کررہی تھی، محبت اور عقیدت سے مولانا صاحب کے قدموں میں گر ی، مولانا صاحب نے بہت سختی سے منع کیا اور مجھ سے کہا اب کیا دیر ہے، آپ کی امانت پڑھنے کے بعد بھی آپ کو کوئی شک رہ گیاہے ؟میں حالانکہ مولانا صاحب سے ملنے ہی آئی تھی، مگر میں اپنے کو روک نہیں سکی اور میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں مسلمان ہونے ہی آئی ہوں، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے فوراً کلمہ پڑھایا اور میرا اسلامی نام سروج شالنی کی جگہ صفیہ شالنی (ایس شالنی) رکھا مولانا صاحب نے مجھے کچھ کتابیں لکھ کر دیں اور نماز یاد کرنے اور پڑھنے کی تاکید کی۔
  سوال  : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اس کا اعلان کیا یا نہیں؟
 جواب  :مولانا صاحب نے مجھے اعلان کرنے کے لئے سختی سے منع کردیا، مگر پھر بھی میں نے اپنے خاص خاص لوگوں سے ذکر کردیا کبھی کبھی مجھے بہت جوش سا بھی آتا ہے کہ اسلام جب حق ہے تو اسے چھپانا اور گھٹ گھٹ کر جینا کیسا؟ مگر مجھے یہ خیال آجاتا ہے کہ جب ایک ایسے آدمی کو جس کی وجہ سے بالکل تصور کے خالف اسلام کی روشنی ایک گندی کو ملی، رہبر مان لیا ہے تو اب اس کا کہا ماننا ہی اچھا ہے۔

  سوال  : اپنی دوست ڈاکٹر رینا سہگل کو آپ نے بتادیا ؟
 جواب  : میں نے نہ صرف یہ کہ اس کو بتادیا بلکہ میں اور ڈاکڑ ولی اللہ دونوں اس پر لگے رہے اور الحمدللہ اس نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے مگر وہ شادی شدہ ہیں ان کے شوہر ڈاکٹر ۔بی ۔کے۔ سہگل اپنی کلینک کرتے ہیں، بڑے سخت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ادھر چند سالوں سے وہ رادھا سوامی ست سنگ سے جڑ گئے ہیں، اس لئے ان کی وجہ سے وہ دبی ہوئی ہیں۔

  سوال  : ڈاکڑ ولی اللہ سے آپ کا رابطہ ہے ؟
 جواب  :اصل میں کٹر ولی اللہ خوددل کے بیمار ہوگئے ان کو دل کی ایک ایسی بیماری ہو گئی جس سے رفتہ رفتہ دل کمزور ہوجاتاہے اور پھر اس میں ’پیس میکر ‘لگانا پڑتا ہے، و ہ اپنے علاج کے سلسلہ میں مجھ سے زیادہ رابطہ میں رہے، میں نے علاج میںبہت دلچسپی لی، ان کی شادی ایک سرکاری ملازمت پر لگی لڑکی سے ہوئی، انہوں نے اس کو شادی سے پہلے بتادیا تھا اور شرط بھی طے کر لی تھی کہ پہلے مسلمان ہوکر نکاح کرنا ہوگا پھر خاندانی رواج کے مطابق شادی ہوگی، انہوں اسے کلمہ پڑھو اکرنکاح بھی کیا مگر بعد میں وہ اسلام کی طرف زیادہ دلچسپی نہ رکھ سکیں، ان کی ملازمت بھی اس میں حائل رہی، اسلام سے ان کی بیوی کی دلچسپی نہ ہونا ان کو گھن کی طرح کھاتی رہی اوروہ دل  کے بیمار ہوگئے، ایلو پیتھک علاج کا ر گر نہ ہوا تو مولانا صاحب نے ان کو یونانی دوا اور کچھ خمیر ے وغیرہ بتائے، ا للہ کا کرم کہ وہ دو ماہ میں تقریباً بالکل ٹھیک ہوگئے، مولانا صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ عرب ملکوں میں چلے جائیں اور اپنی بیوی کو وہیں بلالیں، ان کو ماحول مل جائے گا اللہ کا شکر ہے ان کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور اب گزشتہ ماہ انھوں نے اپنی بیوی کو بلالیاہے، ان کے جانے سے ان کا مسئلہ تو حل ہوگیا مگر میں اکیلی سی ہوگئی، ڈاکڑ رینا جس کا نام آپ کے ابی کے مشورہ سے فاطمہ رکھا گیا تھاان کے شوہر پرکٹر ولی اللہ کام کرررہے تھے اب اس میں کمی آئی ہے، میں ذراکھل کر ان سے بات نہیں کر سکتی۔

  سوال  : کیاآپ کے والد اور والدہ کو بھی آپ کے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا ہے ؟
 جواب  :ہاں میں نے اپنے والد کو صاف صاف بتادیا ہے انہوں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا مگر اب رفتہ رفتہ ان کی کم از کم نا گواری کم ہوتی جارہی ہے۔

 سوال  : آپ کی شا دی ہوگئی یانہیں ؟
 جواب  :میرے والد میری شادی کے سلسلہ میں چھہ سات سال سے فکر مند ہیں، بہت اچھے اچھے رشتے خود ان کے شاگردوں کے آئے، مگر شاید میرے اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس لئے میں اپنے کو تیار نہ کرسکی اور DM کرنے کا بہانہ کرکے منع کردیا، میں نے مولانا سے کئی بار اپنے اسلام کے اعلان کی اجازت مانگی مگر انہوں نے ابھی خاموشی سے گھر والوںپر کام کرنے کو کہا، جب میں نے اپنی نماز، روزہ کی تکلیف کا ذکر کیا تو مولانا صاحب نے ڈاکٹرولی اللہ کے جانے کے بعد مجھے بھی کسی عرب ملک میں ملازمت کے بہا نے جا نے کو کہا اور ڈاکٹر ولی اللہ صاحب سے بھی انہوں نے فون پر کسی جگہ کے لئے بات کی، الحمدللہ جدہ میں کنگ عبدالعزیزاسپتال میں میرا تقرر ہوگیا ہے اور مجھے دو سال کے لئے چھٹی مل گئی ہے، تین ماہ سے میں تیاری میں چھٹی پر ہوں،۔
                اسماء  بہن ! آپ نے شادی کا ایسا سوال کیا ہے کہ یہ سوال خود آپ کے لئے لطیفہ ہے کہ شاید آپ کے علم میں ہوکہ پی جی آئی چندی گڑھ کے ایک سرجن ڈاکٹر اسعد فریدی سے آپ کا رشتہ آیاتھا اور وہ بہت کوشش میں تھے کہ آپ سے ان کا رشتہ ہوجائے وہ اپنے ہسپتال کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر تھے، مگر مقدر سے آپ کا رشتہ علی گڑھ میں ہوگیا تھا مولانا صاحب نے ایک بار مجھ سے معلوم کیا کہ اگر آپ راضی ہوں تو میں کو شش کروں، میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میرے لئے تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی، مگر ایک طرف تو آپ کا اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں دیتے دوسری طرف یہ فیصلہ کس طرح ہوسکتا ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ پہلے راضی ہوں تو میں مسئلہ حل کرتا ہوں میں نے منظوری دیدی، انہوں نے ڈاکٹر اسعد اور ان کے والد اور والدہ سے مجھے ملایا، دونوں طرف لوگ بہت مطمئن اور خوش ہوئے، انہوں نے چند لوگوں کو بلاکر میرا نکاح کر دیا، اللہ کا کرنا ڈاکٹر اسعد کی پوسٹنگ بھی جدہ کنگ عبدالعزیزاسپتال میں ہوگئی انہوں نے بھی اپلائی کر رکھا تھا، وہ جدہ ۶؍ستمبر کو چلے بھی گئے میرا ویزہ وغیرہ آنے والا ہے، خداکرے جلدی آجائے، میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سال ہی حج کرادیں۔

  سوال  : ایک داڑھی شیروانی والے مسلمان سے شادی آپ کو اپنے ماحول کے لحاظ سے عجیب سی نہیں لگی؟
 جواب  :الحمدللہ بالکل نہیں، میرے اللہ کا شکر ہے کہ اسلام کی ہر بات مجھے اندر سے پسند ہے سچی بات یہ ہے کہ اسلام میرے اندرکا فطری مذہب ہے، جب میں نے سنا کہ میرے شوہر ڈاکٹراسعد پی جی آئی کی تاریخ میں شیروانی داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر ہیں، تو میرا دل چاہا کہ میں اسلام کا اعلان کرکے برقعہ اوڑھ لوں اور آل انڈیا میڈکل انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنس میں اکیلی برقع والی ڈاکٹر بنوں، مگر مولانا صاحب نے میرے اس جذبہ کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ابھی دو چار سال سعودی رہ آنے کو کہا، میرا خیال ہے اور مجھے اس خیال سے بھی مزا آتا ہے کہ پورے اسپتال  میں اکیلی برقعہ والی نومسلم ڈاکٹر ِ، پورے اسپتال کے لوگوں کے اسلام کے جاننے کی طرف ایک قدم ضرور ہوگا۔

  سوال  : آپ نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر شادی کرلی، اس سے آپ کے والدین کو تکلیف نہیں ہوگی؟
 جواب  : میرا نکاح تو اچانک ہی ہوگیا، مگر مولانا صاحب نے میرے والد، والدہ کو جب لڑکے کو دکھایا اور بتایا کہ ایک پیسہ یا انگوٹھی جہیز کے بغیر یہ شادی ہوگئی اور سماج کے جھگڑے سے بچنے کے لئے یہ کریں گے کہ پہلے ڈاکٹر اسعد صاحب جائیں گے اور بعد میں ڈاکٹر شالنی جائیں گی، کسی کو پتہ بھی نہ لگے گا اور بعد میں یہ خیال رہے گا کہ سعودی عرب جاکر یہ شادی ہوئی ہوگی، تو برادری اور عزیزوں کو زیادہ برا نہیں لگے گا، وہ راضی ہوگئے خصوصاًڈاکٹر اسعد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، بار بار مجھ سے میرے والد  کہتے کہ شالنی تیری قسمت ہے !چاند سا دولہا تجھے مل گیا، واقعی وہ مجھ سے بہت خوبصورت ہیں، وہ ڈاکٹر اسعد کو دہلی ائیر پورٹ تک چھوڑنے آئے اور بہت پیار بھی کیا۔

  سوال  :   واقعی آپ بہت خوش قسمت ہیں اللہ نے غیب سے آپ کا ایسا اچھا انتظام کیا؟
 جواب  :  بلا شبہ میرے اللہ کا بہت کرم ہے میں جب بھی خیال کرتی ہوں، اپنے اللہ کے حضور سجدہ میں دیر تک پڑ جاتی ہوں واقعی میں اس لائق کہاں تھی، کفر وشرک کے اندھیرے میں مجھے اسلام نصیب ہوا، یہ اس گندی پر میرے مالک کا کرم ہے۔

  سوال  :  آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت نہیں دی؟
 جواب  :  اللہ کا شکر ہے میں رفتہ رفتہ کام کررہی ہوںاور اب اسلام سے ان سبھی کا فاصلہ بہت کم ہوتاجارہاہے۔

  سوال  :  ارمغان کے واسطے سے مسلمانوں کو آپ کوئی پیغام دیناچاہیںگی؟
 جواب  : میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی یافتہ دنیا کو صرف اسلام کی ضرورت ہے اور اسلام کے بغیر یہ دنیا بالکل کنگال ہے، اسماء بہن یہ میں کوئی شاعری نہیں کررہی ہوں، بلکہ اس ترقی یافتہ دنیا کو بہت قریب سے دیکھ کر یہ بات کہتی ہوں، اس کنگال دنیا کو صرف اسلام بنا سکتا ہے ورنہ یہ دنیا دیوالیہ ہوگئی ہے، اس کے دیوالیہ پن اور اندھیرے کا علاج صرف اور صرف اسلام ہے اور یہ دولت صرف اور صرف مسلمان کے پاس ہے پھر بھی اس کنگال دنیا سے ہم مرعوب کیوں ہیں ؟مجھے افسوس اور حیرت ہوتی ہے جب میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ اس دیوالیہ اور اندھیری دنیا میں اپنے پاس دیوالیہ پن کا علاج اور سب سے بڑی دولت رکھنے کے باوجود ہم احساس کمتری میں مبتلا کیوں ہیں؟ہمیں اس پر شکر ہوناچاہئے بلکہ فخر ہونا چاہئے اور اس دیوالیہ دنیا پر ترس کھانا چاہئے، ہمیں اس معنی میں اپنے کو سخی اور دنیا کو حقیر سمجھناچاہئے بس۔ 

  سوال  : بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صفیہ!  السلام علیکم و رحمۃ اللہ ، فی امان اللہ،
 جواب  :  آپ کا شکریہ اسماء بہن ! وعلیکم السلام و رحمۃ و بر کا تہ


                                                                   مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۵؁ء   

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ (بلاگ اسپاٹ کی دنیا میں) نئے ہیں اور درج بالا تحریر پر آپ کا قیمتی تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے تو ۔ ۔ ۔ Comment as میں جا کر“ANONYMOUS" پر کلک کر کے اپنا تبصرہ لکھ دیں – ہاں آخر میں اپنا نام لکھنا نہ بھولیں -

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.