May 2011

اپنی قیمت کا اندازہ لگائیے

اپنی قیمت کا اندازہ لگائیے

ايک چھوٹا سا لڑكا دوكان ميں داخل ہوكر كونے ميں لگے ٹيليفون كيبن كی طرف بڑھا۔

ٹيليفون ميں سكے ڈالنا تو اُس كيلئے ايک اچھا خاصا مسئلہ تھا ہی، بات كرنے كيلئے تو اُسے باقاعده سٹول پر كھڑا ہی ہونا پڑا۔

دوكاندار كيلئے يہ منظر كافی متعجب کن تھا، اُس سے رہا نہ گيا اور لڑكے كی گفتگو سننے كيلئے اس نے اپنے كان اُدھر لگا ديئے۔


لڑكا کسی عورت سے مخاطب تھا اور اس سے کہہ رہا تھا: “ميڈم، آپ مجھے اپنے باغيچے كی صفائی ستھاائی اور ديكھ بھال كيلئے ملازم ركھ لیجئے”.


جبکہ عورت كا جواب تھاكہ”فی الحال تو اُس كے پاس اس كام كيلئے ايک ملازم ہے”.


لڑكے نے اِصرار كرتے ہوئے اُس عورت سے كہا كہ “ميڈم! ميں آپكا كام آپكے موجوده ملازم سے آدھی اُجرت پر كرنے كيلئے تيار ہوں”۔


اُس عورت نے جواب دیا كہ وه اپنے ملازم سے بالكل راضی ہے اور كسی قيمت پر بھی اُسے تبديل نہيں كرنا چاہتی”۔


اب لڑكا باقاعده التجاء پر ہی اُتر آيا اور عاجزی سے بولا كہ: “ميڈم، ميں باغيچے كے كام كے علاوہ آپکے گھر كے سامنے والے گزرگاہ اور فٹ پاتھ كی بھی صفائی کرونگا اور آپكے باغيچے كو فلوريڈا پام بيچ كا سب سے خوبصورت باغيچہ بنا دونگا”.


اور اِس بار بھی اُس عورت كا جواب نفی ميں تھا۔ لڑكے كے چہرے پر ايک مسكراہٹ آئی اور اُس نے فون بند كر ديا۔


دوكاندار جو يہ ساری گفتگو سن رہا تھا اُس سے رہا نہ گیا اور وہ لڑكے كی طرف بڑھا اور اُس سے كہا: ميں تمہارى اعلٰی ہمتی کی داد ديتاہوں، اور تمہاری لگن، مثبت سوچوں اور اُمنگوں كا احترام كرتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ تم ميری اس دوكان پر كام كرو”


لڑكے نے دوكاندار كو كہا:”آپ كی پیشکش كا بہت شكريہ ، مگر مجھے كام نہيں چاہيئے، ميں تو صرف اِس بات كی تصديق كرنا چاہ رہا تھا كہ ميں آجكل جو كام كر رہا ہوں كيا اُس كا معيار قابلِ قبول بھی ہے يا نہيں؟


اور ميں اِسی عورت كے پاس ہی ملازم ہوں جِس كے ساتھ ميں ٹيليفون پر گفتگو كر رہا تھا”


اگر آپكو اپنے كام كے معيار پر بھروسہ ہے تو پھر اُٹھائيے ٹيليفون اور پركھيئے اپنے آپكو! 


بشکریہ : المسافر الغربی 

بیٹے یہ کیا ہے؟


ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ھال کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا۔...

باپ کو نجانے کیا سوجھی، اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟


بیٹے نے جواب دیا؛ یہ کوّا ہے۔ یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔



کُچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس کر آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے؛ یہ کیا ہے؟



بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا: یہ کوّا ہے۔



کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا: بیٹے یہ کیا ہے؟



بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا؛ ابا جی یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔



تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے مُخاطب ہو کر پوچھا؛ بیٹے یہ کیا ہے؟



اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا، نہایت ہی اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے باپ سے کہا؛ کیا بات ہے، آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہو۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو یہ سب کُچھ بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی نہ تو آپ کو سُنائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمجھ آرہا ہے!



اس مرتبہ باپ یہ سب کُچھ سننے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس باہر آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا، بیٹے دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے؟



بیٹے نے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا؛ آج میرے بیٹے کی عمر تین سال ہو گئی ہے۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے؛ یہ کیا ہے۔ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہورہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال ۲۳ بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے ۲۳ بار ہی جواب دیا ہے۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے سے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں۔



سُبحان اللہ

ذرا مسکراؤ . . .

تین سردار کہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے راستے میں ایک مرغا دیکھا۔ تینوں میں بحث شروع ہو گئی۔ 

ایک بولا ”یہ مرغا ہے“۔۔۔
دوسرا بولا ”یہ مرغی ہے“۔۔۔
.
.
.
.

تیسرا بولا ”ایسا کرتے ہیں اس کو پتھر مارتے ہیں۔ اگر بھاگا تو مرغا اگر بھاگی تو مرغی۔“

لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

محترم قارئین حضرات  . . . 

مین نے یہ نظم دل لکی کے طور پر بلاگ پر لگا دی تھی مگر جناب الطاف زکی صاحب کے مندرجہ ذیل تبصرے کی دجہ سے اس کو حذف کرردیا ہے..... . . اور آخر میں اصلی نظم بھی لگا دی ہے  ۔ ۔ ۔ ۔

شکریہ 

جناب الطاف زکی صاحب  : 
ہمیں بزرگوں کا ادب کرنا چاہیے اور متاثر انگیز شخصیات کا اور بھی زیادہ ادب اور احترام۔
محمد اقبال حکیمِ امت بھی کہلائے گئے اور شاعر مشرق بھی۔ انہوں نے اپنے علم و بصیرت کو نثر اور بیشتر شاعری کلام کے ذریعے منتقل کیا جسکے نتیجے میں برصغیر کے مایوس اور ٹوٹے پھوٹے مسلمانوں کو نئی زندگی ملی، خود کو اور اپنی منزل کو پہچانا اور اس کے حصول کیلئے تحریک پاکستان میں شامل ہوگئے۔
پاکستان بن گیا، آج بھی قائم ہے اور انشائ اللہ ہمیشہ رہے گا۔ آمین
ہمیں اپنے محسنو بزرگوں اور ان کی تعلیم کو ہرگز کسی بھی طور مذاق نہیں بنانا چاہیئے۔

 - - - - - - -  - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -


لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاے
ہر جگہ میرے چمکنے سےاجالا ہو جاے

ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

 - - - - - - -  - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -

مدینہ منورہ اور جنت البقیع کے فضائل

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”مجھے ايک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے جوتمام بستوں پر غالب رہی ہے اور اس بستی کو لوگ یثرب کہتے تھے اب وہ مدینہ ہے جو برے آدمیوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال دیتی ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مدینہ میں مر سکتاہوا اسے مدینہ میں مرنا چاہےے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ احمد وترمذی

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی۔ میں اس سے نکلوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی قبر سے نکلیں گے پھر عمررضی اﷲ عنہ، پھر جنت البقیع میں جاؤں گا ،وہاں جتنے مدفون ہیں ان کو اپنے ساتھ لوں گا،پھر مکہ مکرمہ کے قبرستان والوں کا انتظار کروں گا وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان آکر مجھ سے ملیں گے۔
ترمذی


بشکریہ : محمد راشد حنفی صاحب

<<< پچھلا صفحہ

تعمیر نیوز

اس بلاگ کی مذید تحاریر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Powered by Blogger.